ہوتی ہے یار خود سے شکایت کبھی کبھی۔ کرتا ہے دل بھی مجھ سے بغاوت کبھی کبھی۔
ہوتی ہے یار خود سے شکایت کبھی کبھی۔
کرتا ہے دل بھی مجھ سے بغاوت کبھی کبھی۔
❤️
ملتے نہیں ہو مجھ سے ملتے سبھی سے ہو۔
لگتا ہے کر رہے ہو عداوت کبھی کبھی۔
❤️
نظریں لُٹا رہی ہیں محبت کی دولتیں۔
میری طرف بھی کر دو عنایت کبھی کبھی۔
❤️
بیمار عشق ha مجھے آکر کے تھام لو۔
ناساز مجھکو لگتی طبیعت کبھی کبھی۔
❤️
میرے ہو صرف میرے کسی اور کے نہیں۔
یہ دل بھی کر رہا ہے سیاست کبھی کبھی
❤️
دل کا میرے سکون ہو میرا قرار ہو۔
مجھ کو دکھا دیا کرو صورت کبھی کبھی۔
❤️
شائد کی مجھ سے بھول گر ہو جائے پیار میں۔
دینا محبتوں میں رعایت کبھی کبھی۔
❤️
ہر حکم مان لینا اف تک کبھی نہ کہنا۔
کام آتی ہے بڑوں کی نصیحت کبھی کبھی۔
❤️
کیسے بتائیں کیسی حالت تیرے بغیر۔
لگتا ہے دور رہنا قیامت کبھی کبھی۔
❤️
ملتے نہیں ہیں وصل کے موقع یہ بار بار۔
ملتی ہے زندگی میں مہلت کبھی کبھی۔
❤️
کوئی بھی راستہ مجھے آتا نہیں نظر۔
لے جاتی ایسے موڑ پر قسمت کبھی کبھی۔
❤️
سانسیں بھی ساتھ چھوڑ کے جائیں گی ایک دن۔
لگتی ہے زندگی کی قیمت کبھی کبھی۔
❤️
تم تو گل بہار ہو چندہ کی چاندنی ۔
مجھ کو بھی کرنے دینا زیارت کبھی کبھی۔
❤️
ذرّہ ہوں میں صغیر کسی کام کا نہیں۔
پڑتی ہے ہر کسی کو ضرورت کبھی کبھی
❤️❤️❤️❤️❤️❤️
ڈاکٹر صغير احمد صدیقی خیرا بازار بہرائچ
Gunjan Kamal
14-Nov-2022 08:41 PM
👏👌🙏🏻
Reply
Khushbu
14-Nov-2022 05:17 PM
👌
Reply
Abhinav
09-Nov-2022 10:23 AM
Good
Reply